The culture of playing music in weddings

QUESTION:

I am in talks of an engagement with an Arab family inshAllah. Alhamdulilah the man I intend to marry prays his salah, has good aklaaq, his family walk and talk Islam in their dressing, manners and salah, and our parents are happy with it to proceed. 

The only thing is in Arab culture, at weddings although fully segregated in terms of gender, dancing (i.e. dabkeh) and Arabic music is extremely common, and it is something they all do. Personally, I always wished for a wedding according to the sunnah, and without any dancing/music etc. and my family would also prefer not to have something like this at our weddings. How would you advice I proceed with this situation?

ANSWER:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

Firstly, we admire your determination to adhere to the sunnah, and pray that Allah makes you successful in your endeavour and grants you a blissful marriage based on sunnah. Āmeen.

Indeed, these matters are an important part of a person’s life and a clear test of steadfastness on upon deen (Islām). Furthermore, it is only through the mercy of Allah that we are guided; thus, it is only He who we must turn to in all matters. 

In relation to your query, as you asserted, listening to music and dancing are both impermissible and must be avoided in any situation. We advise you to adopt the following steps:

  1. Try to explain your concerns to the family, encouraging them to keep the wedding according to the sunnah as much as possible. Also, you may request them to play Islamic nasheeds instead of music. Remind them that a wedding which is free from sin will be filled with blessings, resulting in a happy marriage InshāAllah. 
  2. If this is not effective, consult a third party ~ someone who may have some influence in the family ~ to speak with your husband-to-be, in an attempt to make him understand.
  3. Most importantly, make continuous du’ā to Allah to ease your affairs and to change the heart and mind of your husband-to-be, towards those actions which bring the happiness of Allah.
  4. If it is still not possible for you to exert any influence upon their decision, try to limit your presence near sin and make istighfār (seek the forgiveness of Allah)

May Allah Ta’āla make it easy for you and grant you a blissful marriage which earns His happiness. Āmeen.

And Allah Ta’āla Knows Best

Abdullah Teladia

Concurred by: Hanif Yusuf

References

 جواب:- گانا بجانا ویڈیوگرافی ، نیز فوٹوگرافی گناہ اور معصیت ہے اور جس دعوت میں معصیت کا ارتکاب ہو اس میں شرکت جائز نہیں مشہور فقیہ علامہ شامی نے اپنے زمانہ میں فسق وفجور کی کثرت کو دیکھتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارے زمانہ میں جب تک معلوم نہ ہو کہ دعوت میں معصیت و بدعت نہیں ہوگی ، اس وقت تک اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔

[Kitāb al-Fatāwā: Zam Zam Publishers: 4:414]

لو دعي إلى دعوة فالواجب الإجابة إن لم يكن هناك معصية ولا بدعة والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقينا أن لا بدعة ولا معصية

[Radd al-Muhtār: H.M. Saeed: 6:348]

سوال: شادی کی رسومات کو اگر روکنے کی قدرت ہوتو بھی ان کو اپنے گھروں میں ہونے دینا کیسا ہے؟ يعنی ان رسومات سے روکا نہ جائے بلکہ ناجائز سمجھتے ہوئے بھی کرایا جائے تو اس شخص کے لئے کیا حکم ہے؟ نیز ان رسومات کو کس حد تک روکا جائے؟ آیا

کہ بالکل ہونے ہی نہ دیا جائے یا صرف یہ کہہ دیا:” بھئ یہ کام نہیں ہو گا اس گھر میں" بھی کافی ہے؟

جواب : ایمان کا اعلی درجہ یہ ہے کہ برائی کو ہاتھ سے روکا جائے ، درمیانہ درجہ یہ ہے کہ زبان سے روکا جائے ، اور سب سے کمزور درجہ یہ ہے کہ اگر ہاتھ سے يا زبان سے منع کرنے کی قدرت نہ ہو تو کم سے كم دل  سے برا سمجھے۔ جولوگ قدرت کے باوجود ایسے حرام کاموں سے نہیں روکتے ،نہ دل سے برا جانتے ہیں، ان میں آخری درجے کا بھی ایمان نہیں ۔

[Aap Ke Masaa'il Aur Un Ka Hal: Maktabah Ludhyānwi: 2:523]

وفِي البَزّازِيَّةِ اسْتِماعُ صَوْتِ المَلاهِي مَعْصِيَةٌ والجُلُوسُ عَلَيْها فِسْقٌ والتَّلَذُّذُ بِها كُفْرٌ أيْ بِالنِّعْمَةِ

[Majma' al-Anhur: Dār Ihyā' al-Turāth: 2:553]

گانا بجانا اور نغمہ وسرود اسلام میں ایک نا پسندیدہ چیز ہے۔ فقہاء احناف رحمہم اللہ تعالی نے اس کو مطلقا ناجائز قرار دیا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فقهاء رحمهم الله تعالى نے یہ حکم عام حالات کے لئے لکھا ہے۔ جہاں تک شادی کی بات ہے تو اس میں دف اور اچھے اشعار کا ثبوت خود احادیث سے ہے۔ چنانچہ حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی شادی کے موقع پر حضور صلی اللہ۔ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے سامنے ہی چند چھوٹی بچیاں دف بجارہی تھیں اور غزوہ بدر میں میرے آباء و اجداد کی بہادری کا تذکرہ کر رہی تھیں. ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے موقع پر دف بجانے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک انصاریہ رضي الله تعالى عنه کی شادی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنه سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ تم نے دلہن کے ساتھ کسی ایسی عورت کو کیوں نہیں بھیجا جو اس طرح گاتی ہو: اتيناكم اتيناكم فحيانا وحياكم.»

اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اشعار پڑھنے کی اجازت ہے۔ حضرت ابو مسعود رضي الله تعالى عنه انصاری اور قرظہ بن کعب رضي الله تعالى عنه جو بدر میں شریک ہونے والے صحابہ رضي الله تعالى عنهم میں سے ہیں ان سے بھی شادی کے موقع پر کمسن بچیوں کے اشعار سننے ثابت ہین اور فتاوی عالمگیری کی عبارت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے موقع پر اور عید کے دن دف بجانے کی اجازت ہے-

لیکن بیہوده ، عشقیہ، گالیوں اور طعنوں پر مشتمل اشعار پڑھنا، بالغ با مشتہات بچیوں کا اجنبیوں تک اپنی آواز پہنچانا، دف کے علاوہ کسی اور چیز سے اپنی آواز ہم آہنگ کرنا جیسے ہارمونیم ، طبلے، با جے وغیرہ مطلقا حرام ، ناجائز اور شدید گناہ اور معصیت کے کام ہیں اور ہمارے زمانے میں دف کی اجازت سے قوی اندیشہ ہے بلکہ مشاہدہ ہے کہ ان ساری برائیوں کو راہمل جاتی ہے۔ اس لئے ہمارے زمانے میں اس کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور اس سے بچنا چاہئے۔ اسی طرف مولانا تھانوی رحمہ اللہ تعال کا بھی رجحان ہے دعائیہ اور صالح و داعی اشعار پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

[Jadīd Fiqhī Masā'il: Zam Zam Publishers: 1:196]

چھوٹی بچیاں خوشی کے وقت کچھ گیت گایا کرتی تھیں جو کہ قواعد موسیقی کے طور پر نہیں ہوتے تھے، ان میں کوئی فتنی بھی نہیں ہوتا تھا۔ اور ان کا مضمون بھی خراب نہیں ہوتا تھا اور جو مضمون خراب ہوتا، آپ صلی الله تعالی علیہ وسلم اس منع فرما دیتے تھے...اسلام کے گیت کیا اب بھی اجازت ہے، بایںہمہ اس کو آپ نے شیطان کا اثر بھی فرمایا - ممانعت کی روایت کثیر اور بڑھ کر ہیں فقہاء کی جزئیات ممانعت میں مصرح ہیں لہذا متعارف گانا بجانا قطعا نا جائز ہے۔۔۔دف کی اجازت اعلان کے لئے دی گئی ہے، بشرطیکہ ہیئۃ الطرب پر نہ ہو اور بغیر جلا جل کے ہو۔ اور جب اعلان بغیر وقف کے ہو جائے تو پھر دف کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔

[Fatāwā Mahmūdiyah: Idārah al-Qur'ān: 11:222]

الجواب وبالله التوفيق: جس تقریب میں گانا بجانا اور ڈانس وغیرہ ہو ، اس میں

شرکت کرناکسی بھی مسلمان بالخصوص علماء اور طلبہ اور ائمہ مساجد کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے، اسی

تقریبات میں شرکت سے احتراز لازم ہے تا کہ منکرات پرنکیر ہو سکے۔

[Kitāb al-Nawāzil: Maktabah Javed: 8:519]

DISCLAIMER:
The Ask Our Imam site hopes to respond to queries relating to Islamic law. It is not an Islamic Law Shari`ah Court. The questions and answers found on this website are for educational purposes. However, many of the rulings rendered here are distinct to the specific scenario and thus should be read in conjunction with the question and not taken as a basis to establish a verdict in another situation or environment. This site bears no responsibility in these responses being used out of their intended context, nor to any party who may or may not follow the responses given and is being hereby exempted from loss or damage howsoever caused. None of the responses rendered may be used as evidence in any Court of Law without prior written consent of Our Imam. Any reference to another website or link provided in our responses or article should not be taken as an endorsement of all the content on that website; in fact, it is restricted to the particular material being cited.

Posted in Nikah & Talaq (Marriage & Divorce)Customs on 12th Dec 2021 by Our Imam | 310 Views