Is it a bid’ah to visit the graveyards and give handshakes exclusively on the day of Eid?

QUESTION:

is it sunnah to go graveyard every eid, as my parents think its sunnah, if it is not sunnah or bidah then am I able to go graveyard every eid with the intention of that it is not sunnah and that I never go graveyard and the only time I go is on eid with parent

Every year my parents on the death anniversary of  their parents, they make us visit to the graveyard to pray for them, and they get some imams and do group dhikr and pray for the deceased,  is this bidah and not sunnah? If it is haraam and wrong then can I go graveyard with intention that I never go graveyard and that this is the one time I go?

is there special hugs on eid day and is it wrong to say eid Mubarak on eid day

ANSWER:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

(1) In principle, visiting the graveyard on any specific date, including Eid day or the anniversary of a deceased beloved, is permissible¹. However, this is only as long as it is not deemed necessary and it is not associated with incorrect and unsubstantiated beliefs or rituals, such as group dhikrs and inviting people for collective duas and collective recitation of the Qur’an.² However, there are other permissible and greatly rewarding ways to benefit our deceased beloved ones, such as: giving charity, supplicating, building a masjid, digging wells, reciting the Holy Qur’an on behalf of them etc.

Hadhrat Mufti Mahmud Hasan Gangohi sahab (rahimahullah) states:

عید کا دن مسرت کا ہوتا ہے، بسا اوقات مسرت میں لگ کر آخرت سے غفلت ہو جاتی ہے اور زیارت قبور سے آخرت یاد آتی ہے، اس لئے اگر کوئی شخص عید کے دن زیارت قبور کرے تو مناسب ہے، کچھ مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کا التزام خواہ عملا ہی سہی جس سے دوسرے کو یہ شبھ ہو کہ یہ چیز لازمی اور ضروری ہے، درست نہیں۔ نیز اگر کوئی شخص اس دن زیارت قبور نہ کرے تو اس پر طعن کرنا یا اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، اس کی احتیاط لازم ہے۔

Translation: The day of Eid is a day of happiness and rejoicing. But, at times, a person turns heedless and inattentive to the Hereafter while in enjoyment. As such, one is reminded of the Hereafter upon visiting the graves. Therefore, it is appropriate, without a problem, for a person to visit the graveyard on the day of Eid. But, to commit to attend regularly, though in practice and not even belief, which makes others doubt that it is necessary, is not correct. Similarly, it is inappropriate to rebuke or belittle anyone who does not visit the graveyard on that day.³ Hence, it is correct to go to the graveyard on the day of Eid.⁴

(2) As for your second query, there is no harm in saying “Eid Mubarak”⁶; however, it is preferable to greet each other after the Eid prayer, as the sahabah (radhiyallahu anhum) did, mainly:

تقبل الله منا ومنك” (May Allah accept from us and you).⁷

(3) Furthermore, it is permissible to shake hands and embrace each other after the Eid khutbah as long as it is done as a means of expressing happiness, and not deemed sunnah or a part of din or seen as important to do so on a regular basis.⁸

And Allah Ta’āla Knows Best

Abdul Raqib Khan 

Concurred by: Hanif Yusuf | Mubasshir Talha

References

[1]

مطلب في زيارة القبور: لا بأس به، بل تندب كما البحر عن المجتبى.....وتزار في كل أسبوع كما في مختارات النوازل. قال في شرح لباب المناسك: الا ان الأفضل يوم الجمعة والسبت والاثنين والخميس

[Radd al-Muhtār: Dār al-Kutub al-'Ilmiyyah: 3:150]

[2]

وعن جابر رضي الله عنه قال كان النبي صلى الله عليه وسلم اذا كان يوم عيد خالف الطريق. رواه البخاري. أي رجع في غير طريق الخروج، قيل والسبب فيه وجوه منها: ان يشمل اهل الطريقين بركته وبركة من معه من المؤمنين. ومنها: ان يستفتي منه اهل الطريقين... ومنها: ان يزور قبور أقاربه. وفيه ايضا: ان من أصر علي امر مندوب وجعله عزما ولم يعمل بالرخصة، فقد اصاب منه الشيطان من الاضلال، فكيف من أصر علي بدعة او منكر

[Mirqāt al-Mafātīh: Maktabah Rashīdiyyah: 3:31]

[3]

سوال: ہمارے گاؤں میں عید کے دن عید کی نماز کے بعد لوگ قبرستان جاتے ہیں، وہاں فاتحہ پڑھ کر چلے آتے ہیں، تو قبرستان جانا خصوصا اس دن کیسا؟
الجواب: عید کا دن مسرت کا ہوتا ہے، بسا اوقات مسرت میں لگ کر آخرت سے غفلت ہو جاتی ہے اور زیارت قبور سے آخرت یاد آتی ہے، اس لئے اگر کوئی شخص عید کے دن زیارت قبور کرے تو مناسب ہے، کچھ مضائقہ نہیں۔ لیکن اس کا التزام خواہ عملا ہی سہی جس سے دوسرے کو یہ شبھ ہو کہ یہ چیز لازمی اور ضروری ہے، درست نہیں۔ نیز اگر کوئی شخص اس دن زیارت قبور نہ کرے تو اس پر طعن کرنا یا اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، اس کی احتیاط لازم ہے۔

[Fatāwā Mahmūdiyah: Idārat al-Fārūq: 9:201}

[4]

سوال: عید کے دن قبرستان جانا کیسا؟
الجواب: عیدین کے دن قبرستان جانا درست ہے بلکہ علماء نے افضل ایام میں شمار فرمایا ہے اس لئے مستحب ہوگا۔ لیکن اس کو لازم اور سنت نہیں سمجھنا چاہیئے۔

[Fatāwā Dārul 'Uloom Zakariyya: 2:742]

[5]

قال: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من اهل الميت ........ وقال في البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثاني والثالث..... واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم او لقراءة سورة الانعام او الإخلاص

[Radd al-Muhtār: Dār al-Kutub al-'Ilmiyyah: 3:148]

[6]

قوله: لاتنكر) خبر قوله: "والتهنئة"، وإنما قال كذلك؛ لأنه لم يحفظ فيها شيء عن أبي حنيفة وأصحابه، وذكر في القنية: أنه لم ينقل عن أصحابنا كراهة، وعن مالك: أنه كرهها، وعن الأوزاعي: أنها بدعة، وقال المحقق ابن أمير حاج: بل الأشبه أنها جائزة مستحبة في الجملة، ثم ساق آثاراً بأسانيد صحيحة عن الصحابة في فعل ذلك، ثم قال: والمتعامل في البلاد الشامية والمصرية "عيد مبارك عليك" ونحوه، وقال: يمكن أن يلحق بذلك في المشروعية والاستحباب؛ لما بينهما من التلازم، فإن من قبلت طاعته في زمان كان ذلك الزمان عليه مباركاً، على أنه قد ورد الدعاء بالبركة في أمور شتى؛ فيؤخذ منه استحباب الدعاء بها هنا أيضاً" اهـ

[Radd al-Muhtār: Dār al-Fikr: 2:169]

سوال: عید کے دین ایک دوسرے کو مبارک باد دینا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟
الجواب وبالله التوفيق: عید کے دن ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور ایک دوسرے کو (تقبل الله منا ومنكم) کہنے میں حرج نہیں۔ تاہم ان کو لازمی اور ضروری سمجھنا اور نہ کرنے والوں کو ملامت کرنا درست نہیں، ورنہ بدعت کے زمرے میں داخل ہو سکتا ہے، البتہ جب عید کی مبارک بادی کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے اور آپس کی کدورتوں اور اختلافات اور باہمی جھگڑوں کے ختم ہونے کا ذریعہ بنے اور آپس میں اخوت ومحبت پیدا ہوتو اس میں حرج نہیں ، بلکہ شرعا اس کا کرنا درست رہے

[Fatāwā 'Uthmāniyah: 1:163]

[7]

باب سنة العيدين لأهل الاسلام، تحت حديث ٩٥٢: وروينا في (المحامليات) بإسناد حسن عن جبير ابن نفير قال: (كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا التقوا يوم العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك

[Fath al-Bārī: 2:575]

[8]
’’اور تحقیق کے بعد اب ہمارا رجحان اس طرف ہوا کہ عید کی نماز کے بعد جو لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہوئے مصافہ کرتے ہیں، یا عیدین اور نکاح وغیرہ کے مواقع پر بطور اظهارسرور وبشاشت کے، اورفتگی وغیرہ کے موقع پر جو اظہار ہمدردی کے طور پر معانقہ کیا جاتا ہے، یہ بھی عادات کے قبیل سے ہے، عبادات کے قبیل سے نہیں، اس لیے مذکور تحقیق کے بعد بندہ اس پربدعت محدثہ کا حکم لگانے کی طرف رجحان نہ رہا، اور جو ہمارے ہندوستان و پاکستان کے بہت سے علماء کی طرف سے اس پر بطور عبادت کے 'بدعت محدثہ ونا جائز ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ جس کی بندہ نے پہلے اتباع کی تھی، اب تحقیق کے بعد بندہ نے اس سے رجوع کرلیا ہے، البتہ کوئی عبادت سمجھے، یا خاص ان مواقع کی سنت سمجھے تو اس سے منع کیا جائے گا،’’

[‘Ilmī wa Tahqīq Rasā‘il (Mufti Muhammad Ridhwan), vol. 19: 02, October 2021,  Māhnāmā Tablīgh, Rawalpindi, www.idaraghufran.org]

سوال: عیدین میں مصافحہ اور معانقہ جائز ہے یا بدعت؟ اس کو روکنا چاہئے یا نہیں؟
الجواب : اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں بعض نے مکروہ بعض نے بدعت وغیرہ کہا ہے۔ لیکن واضح اور بے غبار بات یہ ہے کہ جو کام مسنون و مستحب نہ سمجھا جاۓ اس کے لئے کسی نفس ثبوت کافی ہے یا یہ کہ نصوص شریعت سے متصادم نہ ہو جیسے تعويذات یا دم اس کے لئے مطلق ثبوت یا اصول شریعت سے متصادم نہ ہونا کافی ہے خصوصی ثبوت ضرورة نہیں۔
اگر مصافحہ ومعانقہ عیدین میں إظهار مسرت کا ذریعہ سمجھا جاۓ تو اس کے لئے خوشی کے وقت مصافحہ ومعانقہ کا ثبوت کافی ہے اور متعڈ احادیث میں خوشی کے وقت مصافحہ ومعانقہ کا ثبوت ملتا ہے۔

[Fatāwā Dārul 'Ulum Zakariyya: 2:752]

سوال: عید الفطر اور عید الاضحٰی کو دنیا کی رسم خیال کر کے مصافحہ ومعانقہ کرنا کیسا ہے؟ الجواب: نماز عید الاضحٰی وعید الفطر کے بعد چونکہ عوام مصافحہ یا معانقہ کو ضروری خیال کرنے لگے ہیں، یہ تخصیص خلاف حکم شریعت ہے، اس لئے علماء منع فرماتے ہیں، اور کتابوں میں بھی ایسی تخصیص کو منع لکھا ہے، پس رسم دنیاوی بھی سمجھ کر اس کو نہ کرنا چاہیئے۔

[Fatāwā Dārul 'Uloom Deoband: Dār al-'Ishā'ah: 18:558]

سوال: عید کی نماز کے بعد معانقہ وقال مسنون اور جائز ہے یا نہیں؟ الجواب: عید کی نماز کے بعد ملنا اور معانقہ ومصافحہ کرنا کوئی امر مسنون نہیں ہے لوگوں کی اختراعات وبدعات میں سے ہے۔ احادیث میں جہاں تک معلوم ہے اس کا پتہ نہیں چلتا۔ غیبوبت کے بعد مصافحہ اور طویل غيبوبة پر معانقہ ثابت ہے۔ مگر عید کی نماز کے بعد ان کا ثبوت نہیں۔ یہاں یہ حالت کہ وہ رفقاء جو نماز میں شریک بلکہ برابر کھڑے تھے سلام اور خطبہ کے بعد معانق ہوتے ہیں اوراس کو امر دینی سمجھتے ہیں اس لئے یہ غلط چیز ہے۔

[Fatāwā Rahīmiyyah: Dār al-'Ishā'ah: 2:111]

نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا
سوال: بعض جگہ کئی لوگ نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے کی عادت بنائے ہوے ہیں، شرعا نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے کے کیا حکم؟
الجواب وبالله التوفيق: جو عمل رسول الله ﷺ سے قولا، فعلا یا تقریرا سے ثابت ہو تو ایسے عمل کا اپنانا باعث اجر وثواب ہے۔ ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی سے مصافحہ کرنے کے بارے میں فضائل بھی آئے ہیں، تا ہم نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے کی عادت بنانا اور اس کا التزام ایسا عمل ہے، جو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے ثابت ہے، اس لئے نماز کے بعد مصافحہ کرنے کو لازم سمجھنا مکروہ ہے اور یہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے، بلکہ یہ اہل تشیع کا طریقہ ہے، البتہ جو شخص اس وقت کہیں باہر سے آکر کسی کے ساتھ مصافحہ کرلے اور وہ مذکورہ نیت سے نہ ہوتو یہ چونکہ ملاقات کے وقت مصافحہ کے زمرے میں آتا ہے، لہذا یہ مکروہ نہیں ہے۔

[Fatāwā 'Uthmāniyah: 1:164]

DISCLAIMER:
The Ask Our Imam site hopes to respond to queries relating to Islamic law. It is not an Islamic Law Shari`ah Court. The questions and answers found on this website are for educational purposes. However, many of the rulings rendered here are distinct to the specific scenario and thus should be read in conjunction with the question and not taken as a basis to establish a verdict in another situation or environment. This site bears no responsibility in these responses being used out of their intended context, nor to any party who may or may not follow the responses given and is being hereby exempted from loss or damage howsoever caused. None of the responses rendered may be used as evidence in any Court of Law without prior written consent of Our Imam. Any reference to another website or link provided in our responses or article should not be taken as an endorsement of all the content on that website; in fact, it is restricted to the particular material being cited.

Posted in Daily MattersDeath (Funeral)Aqaa'id (Beliefs)Sawm & Ramadhaan (Fasting)Customs on 19th Nov 2021 by Our Imam | 1079 Views