Does the divorce occur if the husband conditions it to the approval of the wife?

QUESTION:

Asalaamu’alaikum. May I ask an Islamic divorce question please.
If a man writes on paper “if we don’t reconcile before the 28th of February and you don’t say to me you want to remain married, then we are divorced”
A day later we spoke about reconciling, I said I wanted to remain married. He said okay and we will decide closer to the date.
After that conversation, my husband got Covid and had to isolate so we didn’t see each other or speak.

Does the divorce then take place?
Thank you

ANSWER:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

In principle, if the wife stated that she wanted to remain married (as has been mentioned), then the divorce has not occurred and the marriage is intact. [1]

And Allah Ta’ālā Knows Best
Abdul Raqib Khan 

Concurred by:
Hanif Yusuf

References

[1]

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقاً مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق
[al-Fatāwā al-Hindiyyah: Dār al-Fikr: 1:488]


ولو قال: أنت طالق رأس الشهر أو إذا قدم فلان، فإن قدم هو رأس الشهر وقع
[Khizānah al-Akmal: DKi: 1:616]


ولو قال : أمرك بيدك إلى رأس الشهر ـ صار الأمر بيدها إلى رأس الشهر، ولا يبطل بالقيام عن المجلس، والاشتغال بترك الجواب، وهل يبطل باختيارها زوجها ـ فهو على الاختلاف الذي ذكرنا في الصفحة -٢٥٢ وهو: ولو اختارت نفسها في الوقت مرة ليس لها أن تختار مرة أخرى؛ لأن اللفظ يقتضي الوقت، ولا يقتضي التكرار
ولو قالت : اخترت زوجي، أو قالت لا أختار الطلاق ذكر في بعض المواضع أن على قول أبي حنيفة ومحمد : يخرج الأمر من يدها في جميع الوقت، حتى لا تملك أن تختار نفسها بعد ذلك، وإن بقي الوقت، وعند أبي يوسف يبطل خيارها في ذلك المجلس، ولا يبطل في مجلس آخر، وذكر في بعضها الاختلاف على العكس من ذلك
[Badā'i' al-Sanā'i': DKi: 4:252]


٦٧٤١:- وفي القدوري: عـن أبـي يـوسف رحمه الله تعالى: إذا قال لها "أمرك بيدك إلى رأس الشهر“ فلها أن تطلق نفسها مرة واحدة في الشهر وليس لها أن تـطـلـق أخـرى فـي الشهـر، ولا يـخـرج الأمـر من يدها بتبدل المجلس ليكون التوقيت مقيدا، ولو قالت "أخترت زوجي“ بطل خيار ها في اليوم، ولها أن تحتار نفسهـا مـن الـغـد في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، وقال أبو يوسف رحمه الله تـعـالـى: خـرج الأمـر مـن يـدهـا في الشهر كله، ذكر القدوري الخلاف في هذه الـمـسـألة عـلـى هذا الوجه، وذكر الخلاف في مثل هذه الصورة على عكس هذا، وصـورتـهـا: إذا قـال لـهـا "أمـرك بيدك هذا الشهر‘‘ فاختارت زوجها أو قالت "لا أختـار الطلاق“ خرج الأمر من يدها في جميع ذلك الشهر عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله، وقال أبو يوسف رحمه الله: لا يبطل خيارها في مجلس آخر
[al-Fatāwā al-Tātārkhāniyah: Maktabah Fārūqiyah: 4:490]


وذكر الولوالجي: إذا قال أمرك بيدك إلى رأس الشهر فلها أن تطلق نفسها مرة واحدة في الشهر لأن الأمر متحد، ولو قالت اخترت زوجي بطل خيارها في اليوم ولها أن تختار نفسها في الغد عند أبي حنيفة. وقال أبو يوسف: خرج الأمر من يدها في الشهر كله
[al-Bahr al-Rā'iq: DKi: 3:560]


وإذا قال لها: اخـتـاري يوم كذا كذا، أو رأس الشهر، أو صلاة الأولى، أو يوم يقدم فلان، فلها الخيار ذلك اليوم كله، ووقت تلك الصلاة كلها، ورأس الشهر ليله ويومه ذلك كله، تختار في أي ساعة من ذلك شاءت
[al-Asl: Dār ibn Hazm: 4:594]


اور اگر اپنی بی بی سے کہا: اگر تو فلانا کام کرے تو تجھ کو طلاق۔ اگر تو میرے پاس سے جاوے تو تجھ کو طلاق۔ اگر تو اس گھر میں جاوے تو تھ کو طلاق۔ یا اور کسی بات کے ہونے پر طلاق دی، تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق پڑ جاوے گی۔ اگر نہ کرے گی تو نہ پڑے گی۔
اور طلاق رجعی پڑے گی جس میں بے نکاح بھی روک رکھنے کا اختیار ہوتا ہے۔ البتہ اگر کوئی گول لفظ کہتا جیسے یوں کہے: اگر تو فلانا کام کرے تو مجھ سے تجھ سے کچھ واسطہ نہیں، تو جب وہ کام کرے گی تب طلاق بائن پڑے گی، بشرطیکہ مرد نے اس لفظ کے کہتے وقت طلاق کی نیت کی ہو۔
[Behishti Zewar: Altaf & Sons: 512]


(الفاظ کنائی کو شرط پر معلق کرنا)
سوال: میری لڑکی مسماۃ ہا جرہ خاتون اپنی سسرال میں تھی وہاں زیادہ دنوں سے پیار رہتی تھی، ان لوگوں نے دوا وعلاج کیا مگر طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی تو میں علاج کے لیے اپنے گھر لے آیا اور ہاسپٹل میں بھرتی کر دیا جب ہاسپٹل سے گھر لے آیا تو بھی کافی کمزوری تھی یہاں تک کہ خود سے پانی وغیرہ بھی بھرنا مشکل تھا، اسی دوران ۲۵/ مارچ ۲۰۰۰ء کو اس کا شوہر آیا اور اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کہا، میں نے کہا: یہ ابھی کافی کمزور ہے اور علاج چل رہا ہے کچھ دن اور رہنے دو جب اٹھی ہو جاۓ گی تو لیے جانا اور لوگوں نے بھی سمجھایا لیکن اپنے ساتھ لے جانے پر بند رہا، میں نے کہا کہ جا کر اپنے گھر والوں میں سے کسی بڑے کو بیج دیجئے ہم لوگ سنجیدگی سے بات کر لیں گے لیکن وہ غصے میں گیا اور درج ذیل رقعہ بھجوا دیا "از طرف اشتیاق . ہاجرہ کو معلوم ہو کہ اگر کل ۱۲ بجے دن میں نہیں آئی تو ہمارا تم سے رشتہ الگ ہو جائے"۔

 پھر دوسرے دن ۱۲ بجے سے بہت پہلے اس کے گھر سے کئی لوگ آۓ کہ ۱۲ بجے سے پہلے آپ جانے دیجئے تا کہ کام بن جاۓ پر لے آنا، علاج کے لیے، لیکن میں نے نہیں جانے دیا، اور۱۲ بجے کے بعد لوگ مایوس ہو کر چلے گئے، پھر کچھ دن بعد کئی آدمیوں کو بھیجا، جس میں دو عالم دین اور اس کا ایک بھائی بھی تھا اس دن جو کچھ بات چیت ہوئی درج ذیل ہے.....

آب در یافت طلب امر یہ ہے کہ اس واقعہ میں جو مضمون لکھا تھا اس سے کیسی طلاق پڑے گی اگر کنایہ کا لفظ ہونے سے طلاق کا وقوع نیت پر موقوف ہے تو ١/٢/٣/٤/٥ میں درج کی گئی باتوں سے کیا ثابت ہوتا ہے، ان باتوں سے طلاق کی نیت صاف طور سے ظاہر ہوتی ہے یا نہیں؟

الجواب وبالله التوفيق: جب طلاق کے لیے کنائی الفاظ کوکسی شرط پر معلق کیا جاۓ تو طلاق کا قرین اور شرط کے پاۓ جانے کے بعد ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے۔ لہذا جب شوہر نے بیوی کو لکھا کہ اگر کل ۱۲ بجے دن میں نہیں آئی ،تو ہمارا تم سے رشتہ الگ ہو جائے گا‘‘ ظاہر بات ہے کہ اس طرح کی تحریر بیوی کو لکھنا طلاق اور رشتہ ختم کرنے ہی کی نیت سے ہوتا ہے، اور جب بیوی کل ۱۲ بجے دن میں نہیں آئی ،لہذا شرط پائی گئی تو ایک طلاق بائن واقع ہو گئی، اور بعد میں جتنی مرتبہ شوہر نے لوگوں کے پوچھنے پڑ "چھوڑ دیا‘‘ کا لفظ کیا ہے وہ سابقہ طلاق بائن کی خبر میں ہیں ان خبروں کی وجہ سے پھر کوئی نئی طلاق نہیں پڑے گی، چونکہ طلاق بائن واقع ہو چکی ہے اس لیے سامان جہیز وغیرہ واپس کرنا سب بیج ہوگا، اور ہا جرہ شوہر کے نکاح سے آزاد ہو چکی ہے، وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے، ہاں البتہ سابقہ شوہر کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے، اور چونکہ طلاق مغلظہ نہیں ہوئی ہے اس لیے حلالہ کی ضرورت نہیں ، ہاں البتہ شرعی طور پر باضابطہ نکاح کر کے اس شوہر کے پاس رہ سکتی ہے، حاصل یہ ہے کہ اب ہاجرہ کو کلی اختیار حاصل ہے کہ پا ہے سابقہ شوہر کے ساتھ نکاح کر کے رہے اور چاہے تو دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح کر کے باعصمت زندگی گذارے۔
[Fatāwā Qāsmiyah: Ashrafī Book Depot Deoband: 16:57-59]

DISCLAIMER:
The Ask Our Imam site hopes to respond to queries relating to Islamic law. It is not an Islamic Law Shari`ah Court. The questions and answers found on this website are for educational purposes. However, many of the rulings rendered here are distinct to the specific scenario and thus should be read in conjunction with the question and not taken as a basis to establish a verdict in another situation or environment. This site bears no responsibility in these responses being used out of their intended context, nor to any party who may or may not follow the responses given and is being hereby exempted from loss or damage howsoever caused. None of the responses rendered may be used as evidence in any Court of Law without prior written consent of Our Imam. Any reference to another website or link provided in our responses or article should not be taken as an endorsement of all the content on that website; in fact, it is restricted to the particular material being cited.

Posted in Nikah & Talaq (Marriage & Divorce) on 23rd Apr 2022 by Our Imam | 488 Views