Am I allowed to sell regular items that have images of living things?

To download this Fatwā, please click here

QUESTION:

Assalaamualaykum ww. Is it permissible to sell day to day regular items that have images of animals/people on them E.g. Cereals footballs etc

ANSWER:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salāmu ‘alaykum wa-rahmatullāhi wa-barakātuh.

In principle, it is permissible to sell such items wherein the images of living things are not intended when the item is bought, such as cereals and nappies etc. [1] However, it is impermissible to sell an item which is bought specifically for the image or where the image is the main focus, such as on clothing. 

Nevertheless, whatever the case, it will still be advised that alternatives, without any pictures of living beings, be sought where possible.

And Allah Ta’ālā Knows Best

Concurred by:
Hanif Yusuf | Zayd Imran

References

[1]
وتُكْرَهُ التَّصاوِيرُ فِي البُيُوتِ لِما رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - - عَنْ سَيِّدِنا جِبْرِيلَ - عليه السلام - أنَّهُ قالَ «لا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ أوْ صُورَةٌ» ولِأنَّ إمْساكَها تَشَبُّهٌ بِعَبَدَةِ الأوْثانِ إلّا إذا كانَتْ عَلى البُسُطِ أوْ الوَسائِدِ الصِّغارِ الَّتِي تُلْقى عَلى الأرْضِ لِيُجْلَسَ عَلَيْها فَلا تُكْرَهُ لِأنَّ دَوْسَها بِالأرْجُلِ إهانَةٌ لَها فَإمْساكُها فِي مَوْضِعِ الإهانَةِ لا يَكُونُ تَشَبُّهًا بِعَبَدَةِ الأصْنامِ إلّا أنْ يَسْجُدَ عَلَيْها فَيُكْرَهُ لِحُصُولِ مَعْنى التَّشَبُّهِ
[Badā'i' al-Sanā'i': DKi: 6:505]


الضرورات تبيح المحظورات
[al-Ashbāh wa al-Nadhā'ir: 1:73]


جواب ۳۳۱ تصويروں کا خریدنا بیچنا ناجائز ہے خواہ وہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور بچوں کے کھیلنے کی ہوا یا اور کسی غرض کے لئے ، البتہ ایسی اشیاء جن میں تصویر کا پیچنا خریدنا مقصود نہ ہو جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے مگر تصویر کی بیع و شرا مقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے باجے وغیرہ جن میں تصویر نہ ہو بچوں کے کھیلنے کے لئے خریدنا اور ان کا بیچنا مباح ہے۔
[Kifāyah al-Muftī: Dār al-Ishā'at: 9:235]


کپڑے کے تھان کہ جس پر کارخانے کے رجسٹرو چھاپ کا لیبل چسپا ہوتا ہے جو جاندار کی تصویر ہو یا بکس کہ جس پر تصویر جاندار ہو اور اس میں اشیائے فروخت بند ہوتی ہیں اس کا دوکان میں رکھنا تصویر رکھنے کے حکم میں ہوگایا نہیں؟
اخبار وغیرہ كى تصوير كا حكم
اس میں چونکہ تصویر کی بیع وشرا مقصود نہیں ہوتی اس لئے ضرورة گنجائش ہے اس کا حکم بھی نمبر کا ہے کہ ضرورۃ ان اخبارات کا خریدنا جائز ہے کیونہ تصاویر کی بیع وشرا مقصود نہیں ہوتی۔
[Kifāyah al-Muftī: Dār al-Ishā'at: 9:249]


 وہ تصویریں جن کی پرستش نہیں کی جاتی، اگر ان تصویروں کو مقصودا بالذات خریدے اور ان میں کاری گری کے سوا کوئی اور مال نہ ہو تو ان کی بیع باطل ہے، اگر ان میں کچھ اور مال بھی لگا ہوا ہے تو مال کی مقدار میں بیع بکراہت شدیدہ نافذ ہوگی، اگر ایسی تصویریں کسی کتاب یا برتن وغیرہ پر ہیں اور ان کی وجہ سے قیمت یا رغبت میں اضافہ ہوتا ہو تو مکروہ ہے، اگر ان کی وجہ سے رغبت نہ بھی ہو تب بھی کراہت سے خالی نہیں ہے ہاں البتہ ان سے بچنا مشکل ہو جیسے روپیہ، کاغذ، ٹکٹ ، کارڈ وغیرہ جن ہر تصویریں چھپی ہوتی ہیں تو چھاپنے والے تو گناہگار ہوں گے عام لوگوں کو گناه نہیں ہوگا (تاہم استعمال سے پہلے اس کا چہرہ مسح کردے)
['Itr Hidāyah: Maktabah Na'īmiyyah: 171]


سوال:- 1816 الف کی دوکان ہے، جس میں اشیاء ضروریہ فروخت کی جاتی ہیں ، اس میں بعض اشیاء میں تصاویر بھی ہیں ، اگر ان کو الگ کر دیا جائے تو ایک سامان کو لینے سے کترائیں گے، اور سامان عیب دار محسوس ہوگا ایسی صورت میں کیا ان اشیاء کی خرید وفروخت کی جا سکتی ہے؟
جواب:- بدقسمتی کی بات ہے کہ آج کل ایسی چیزوں پر بھی تصویروں کا لیبل لگایا جاتا ہے جن سے تصویر کا کوئی تعلق نہیں، اور جو لوگوں کی ضروریات زندگی میں داخل ہیں اور چونکہ ان کا خریدنا اور فروخت کرنا ایک ضرورت ہے لیبل کے کھرچ دینے سے سامان کا صحیح ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے اور ان کو فروخت کرنے میں تصویر مقصود نہیں ، بلکہ اصل شئے مقصود ہوتی ہے، اس لئے موجودہ حالات میں ان اشیاء کی خرید وفروخت درست ہوگی
[Kitāb al-Fatāwā: Zam Zam Publishers: 5:209]


وأما اتخاذ المصور فيه صورة حيوان، فإن كان معلقا على حائط أو ثوب ملبوسا أوعمامة ونحو ذلك مما لايعد ممتهنا فهو حرام، وان كان في بساط يداس ومخدة ووسادة ونحوها مما يمتهن فليس بحرام
[Imdād al-Fatāwā: Zakariyya Book Depot: 9:385]


سوال (۲۹۲۵): بعض طبی کتابوں میں تصاویر تمام جسم کی ہوا کرتی ہیں، ان کو ان کی حالت پر رکھنا جائز ہے یانہیں؟ اگر ان پرقلم وغیرہ پھیرا جائے گا تو بعض اعصاب وغیرہ کے نام مشکوک ہوجائیں گے۔
الجواب : في الدرالمختار: ولا يكره لو كانت تحت قدميه -إلى قوله لا المستتر بكيس أو صرة أو ثوب آخر. وفي ردالمحتار: بأن كان فوق الثوب الذي فيه صورة ثوب ساترله فلا تكره الصلاة فيه لاستتارها بالثوب (بحر) وفيه: فإن ظاهره ان مالا يؤثر كراهة في الصلواة لايكره إبقاءه، وفيه هذا كله في اقتناء الصورة، وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلق الخ. ان روایات سے ان صور کے على حالہا چھوڑ دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
[Imdād al-Fatāwā: Zakariyya Book Depot: 9:381]


الجواب وبالله التوفيق: بچوں کی گڑیا جس میں تصویر ہی اصل مقصود ہوتی ہے، اس کی خرید وفروخت مكروه تحريمي اور ناجائز ہے؛ البتہ ایسے سامان جن میں تصاویر اصل مقصود نہیں ہوتیں لیکن تصویر میں ان میں چھپی رہتی ہیں، ان کی خریدو فروخت کی گنجائش ہے۔
[Kitāb al-Nawāzil: Maktabah Jāwed: 10:415]

DISCLAIMER:
The Ask Our Imam site hopes to respond to queries relating to Islamic law. It is not an Islamic Law Shari`ah Court. The questions and answers found on this website are for educational purposes. However, many of the rulings rendered here are distinct to the specific scenario and thus should be read in conjunction with the question and not taken as a basis to establish a verdict in another situation or environment. This site bears no responsibility in these responses being used out of their intended context, nor to any party who may or may not follow the responses given and is being hereby exempted from loss or damage howsoever caused. None of the responses rendered may be used as evidence in any Court of Law without prior written consent of Our Imam. Any reference to another website or link provided in our responses or article should not be taken as an endorsement of all the content on that website; in fact, it is restricted to the particular material being cited.

Posted in MiscelleaneousDaily MattersBuyoo' (Money-related issues) on 13th Oct 2022 by Our Imam | 458 Views